Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر7

وہ دونوں جس وقت گھر پہنچے چار بج چکے تھے سبھی لاونج میں موجود تھے ۔۔۔ اشعر نے تو سارا دن باہر گُزارا تھا اور اس وقت وہ اپنے کمرے میں تھا جب کہ عانیہ گھر میں ہی نادیہ بیگم کے ساتھ رہی تھی جو کہ اس کی ماں کی ہدایت تھی کہ تم ان کی ہونے والی بہو ہو سو اس گھر کے نظام ابھی سے سمبھالنا شروع کرو جبکہ نادیہ بیگم اچھے سے سب کُچھ سمجھ رہی تھی ایسا نہیں تھا کہ اُنہیں عانیہ پسند نہیں تھی وہ ایک اچھی لڑکی تھی مگر وہ شایان کی مرضی جانے بغیر اتنا بڑا فیصلہ نہیں کر سکتی تھیں اس لیے حنا بیگم کو کوئی جھوٹی آس نہیں دلائی تھی۔ وہ ان ماؤں میں سے تھیں جو اپنے بچوں کی خوشیوں کو خود پہ ترجیح دیتی ہیں نا کہ اپنی انا کی وجہ سے اپنے بچوں کی خوشیاں روند دیتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ دونوں ایک ساتھ گھر میں داخل ہوئے تو سب کی نگاہیں اس طرف اُٹھ گئی جہاں نادیہ بیگم اور مراد صاحب کی نظروں میں ان کے لیے محبت تھی وہیں حنا بیگم کی نظروں میں ناگواری تھی۔۔۔۔ اسلامُ علیکم ۔۔۔۔۔۔۔۔ دونوں نے بیک وقت سلام کیا جس کا سب نے ہی جواب دیا ۔ ساوی بیٹا تمہاری یونیورسٹی کا ٹائم تو دو بجے تک ہوتا ہے نہ تو پھر اتنی دیر کہاں لگا دی۔۔۔۔ حنا بیگم بظاہر میٹھے لہجے میں بولیں ۔۔۔ جی ممانی جان ٹائم تو دو بجے کا ہی ہوتا ہے مگر ساوی مُجھ سے ناراض تھی تو میں اُسے منانے کے لیے باہر لنچ پہ لے گیا تھا۔۔۔ ساوی کی بجائے جواب درید کی طرف سے آیا تھا اور اس کے سب کے سامنے ایسےجواب پہ ساوی جھینپ سی گئی تھی۔۔۔ اوہ اچھا گھر میں مہمان آئے ہیں تم لوگوں کو گھر پہ آکے سب کے ساتھ لنچ کرنا چاہیے تھا مگر تم لوگوں کو کوئی احساس ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔ حنا بیگم ناگواری سے بولیں جب کہ وقار صاحب اپنی بیوی کی بات پہ شرمندہ سے ہو گئے ۔۔۔۔ ان کی بات پہ ساوی کے چہرے کا رنگ فق ہوا جب کہ درید کو انتہا کا غصہ آیا اب وہ باہر بھی ان سے پوچھ کے جائیں گے۔۔۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے بھابھی درید مُجھ سے پوچھ کے گیا تھا اور مُجھے پہلے سے پتہ تھا کہ وہ لنچ باہر ہی کریں گے۔۔۔ اس سے پہلے کہ درید کوئی جواب دیتا نادیہ بیگم نے اپنے طریقے سے بات کو ہینڈل کیا ۔۔۔۔ چلو اچھی بات ہے اگر تمہیں پتہ تھا تومیں کون ہوتی ہوں کُچھ کہنے والی ۔۔۔۔۔وہ تلخی سی بولیں جب کہ ان کی بات پہ نادیہ بیگم آگے سے چُپ ہی رہیں کہ وہ بات بڑھانا نہیں چاہتی تھیں ۔۔۔۔ اس سارے عرصے میں مُراد صاحب اور عانیہ خاموش ہی رہے تھے۔۔۔۔۔ ساوی درید بیٹا جاو دونوں فریش ہو جاؤ تھکے گئے ہو گے ۔۔۔۔ اب کہ وہ اِن دونوں سے بولیں جو ابھی تک کھڑے ہی تھے ۔۔۔ جی ماما ۔۔۔۔ساوی کہہ کے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی جب کہ درید بھی سر ہلاتا وہاں سے چلا گیا۔۔۔


رات میں ڈنر سب نے ساتھ ہی کیا تھا ڈنر کے بعد چائے کا دور چلا تھا وقار صاحب نے روم میں جاتے ہی حنا بیگم سے باز پرس کی تھی انہیں اپنی بیوی کا رویہ پسند نہیں آیا تھا اور جواب میں حنا بیگم نے ہونہہ کہہ کے دامن چھڑا لیا تھا اور وہ اپنی بیگم کا منہ دیکھتے ہی رہ گئے تھے جنہوں نے ان کو اپنی بہن کے سامنے شرمندہ کروا دیا تھا اور خود کو احساس تک نہیں تھا ۔۔۔۔ ساوی اکیلی لان میں چہل قدمی کر رہی تھی جب کوئی اس کے ساتھ آ کے چلنا شروع ہوا اس نے چونک کر آنے والے کی طرف دیکھا تو اشعر کو دیکھ کے حیران رہ گئی ساوی کو عادت تھی ڈنر کے بعد چہل قدمی کرنے کی اسی لیے وہ یہاں موجود تھی اور اب اشعر کو اگنور کر کہ جا بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ بدتہزیب نہیں تھی سو مجوراً وہیں ٹہلتی رہی دل میں ڈر بھی تھا کہ درید نا آجائے ۔۔۔۔۔۔۔ اکیلے اکیلے چہل قدمی ہورہی ہے بور نہیں ہو رہی۔۔۔۔۔ وہ اس کے ساتھ چلتا ہوا بولا ۔۔ نہیں اشعر بھائی مجھے عادت ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ جواباً بولی۔۔۔ بڑی بُری عادت ہے پھر تو۔۔۔ ویسے ایک بات پوچھوں ؟ وہ اس کی عادت پہ تبصرہ کرتا سوالیہ ہوا ۔۔ جی اشعر بھائی پوچھیں ۔۔۔وہ اجازت دیتی بولی۔ یہ تم مجھے بھائی کیوں کہتی ہو اشعر کے ساتھ بھائی لگانا لازمی ہے ؟؟؟ وہ اسکے چہرے کو غور سے دیکھتا ہوا بولا جی یہ کیسا سوال ہے ۔۔۔وہ حیران ہوئی ۔۔ سوال تو سوال ہے تم جواب دو۔۔۔۔ وہ جواباً بولا ۔ آپ مجھے سے بڑے ہیں شایان بھائی کی عمر کے تو میں آپ کو بھائی ہی کہوں گی نا ۔۔۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بولی میں تم سے بڑا ہوں تو درید بھی تم سے بڑا ہے مُجھ سے ایک سال چھوٹا جبکہ تم سے پانچ سال بڑا ہے پھر اسے بھائی کیوں نہیں کہتی تم ؟؟؟ وہ اس بار زرا تلخی سے بولا ۔۔ ان کی بات اور ہے آپ خود کو ان سے کمپئیر نہیں کر سکتے ۔۔وہ ناگواری سے بولی اسے اشعر کی بات پسند نہیں آئی تھی۔۔۔۔۔ کیوں نہیں کر سکتا وہ بھی تم سے بڑا ہے میں بھی پھر کیا فرق ہے؟؟؟۔ وہ سوالیہ انداز میں بولا فرق یہ ہے کہ وہ میرے بیسٹ فرینڈ ہیں میرے بڈی ہیں جبکہ آپ میرے صرف کزن ہیں اس کے علاوہ کُچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔اور آئیندہ مُجھ سے اس قسم کی باتیں مت کیجئے گا مجھے پسند نہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ دو ٹوک لہجے میں بولتی اندر کی طرف بڑھ گئی جبکہ وہ وہی کھڑا تلملاتا رہ گیا بہت اکڑ ہے نا تم میں بہت فخر اور غرور ہے نا اپنے بڈی پہ تمہیں تمہارے بڈی سے چھین کر یہ غرور ہی توڑ دوں گا میں ۔۔۔۔ وہ سلگتے ہوئے خود سےبولا اور اپنے روم کی طرف جانے لگا کہ کوریڈور میں ہی درید اسے اپنی طرف آتا دکھائی دیا ۔۔۔۔۔اس نے کھڑکی سے اشعر کو ساوی کے ساتھ دیکھ لیا تھا اور اسے انتہا کا غصہ آیا تھا مطلب میرے منع کرنے کے باوجود وہ اس سے باتیں کر رہی تھی۔۔۔۔۔ کیا باتیں کر رہے تھے تم ساوی سے؟؟؟ اس نےڈائریکٹ انداز میں پوچھا ۔۔۔۔ جو بھی باتیں کر رہے تھے یہ میری اور اس کی بات ہے تمہیں کیوں بتاؤں ؟؟؟؟ وہ اسے آگ لگاتا ہوا بولا اوہ اچھا جب وہ ہی میری ہے تو تمہاری اور اس کی باتیں کیسے ہو گئیں ۔۔۔۔۔۔ وہ استہزایہ انداز میں مسکرایا کس غلط فہمی میں جی رہے ہو تم ؟؟ ساوی صرف میری ہے بہت جلد میں اس سے شادی کر لوں گا اور شاید ماما نے بات کر بھی لی ہو ہمارے رشتے کی اور مجھے پورا یقین ہے پھپھو کبھی منع نہیں کریں گی آفٹر آل میں اُن کا سگا بھتیجا ہوں ۔۔۔۔ وہ مزاق اُڑانے والے انداز میں بولا ۔۔۔۔۔
تم اُن کے بھتیجے ہو تو میں بھی انہی کا بھتیجا ہوں وہ میری خوشی مُجھے ہی دیں گی۔۔۔۔ درید اطمینان سے بولا ہاہاہاہا تم پھوپھو کے جیٹھ کے بیٹے ہو اور میں ان کے بھائی کا بیٹا اب خود ہی سوچ لو کہ وہ اپنے بھائی سے اتنا پیار تو کرتی ہی ہیں کہ اپنی بیٹی کا ہاتھ اپنے بھائی کے بیٹے کے ہاتھ میں دے دیں ۔۔۔۔۔۔۔ . وہ طنزیہ انداز میں بولا تم جو مرضی سمجھتے رہو یہ تمہاری غلط فہمی ہے کہ تم اسے پا لو گے کیونکہ ساوی صرف درید کی ہے اسے مجھ سے کوئی الگ نہیں کر سکتا ۔۔۔ اور یہ بات اپنے اس چھوٹے سے دماغ میں جتنی جلدی بٹھا لو گے تمہارے لیے اُتنا ہی اچھا رہے گا ۔۔۔۔ وہ اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے بولا ۔ دیکھیں گے۔۔۔۔۔۔ وہ اس کا غصے سے لال چہرہ دیکھ کے چلا گیا اور درید نے غصے سے اپنا ہاتھ دیوار پہ دے مارا ۔۔۔۔


وہ اس وقت عانیہ کا ویٹ کر رہی تھی جو کہ ممانی جان کی بات سُننے گئی تھی اور اب تک واپس نہیں آئی تھی اب تو اسے نیند آنے لگی تھی وہ واش روم میں گئی چہرہ دھونے کے لیے تا کہ یہ نیند بھاگ سکے ابھی وہ چہرہ دھو کے باہر آئی ہی تھی کہ درید آندھی طوفان کی طرح کمرے میں داخل ہوا اور اپنے پیچھے دروازہ لاک کر کے ساوی کی طرف بڑھا جو اس کے غصیلے انداز کو دیکھتی ڈر سی گئی تھی اس سے پہلے کہ وہ کُچھ پوچھتی درید نے اسے بازو سے دبوچ کے دیوار سے لگایا اور اس کے دونوں طرف دیوار پہ اپنے بازو اس طرح ٹکا دئیے کہ وہ قید ہو کے رہ گئی ۔۔۔۔۔۔ کیا کر رہی تھی تم اس کے ساتھ باہر ؟؟؟؟؟ وہ غرّاتا ہوا بولا و وہ وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ایک تو ڈر اور دوسرا اس کی قربت اس سے بولا بھی نہیں گیا پہلی بار تو وہ اس کے اتنا قریب آیا تھا فطری شرم اور گھبراہٹ سے وہ ہکلا کے رہ گئی۔ کیا وہ ہاں کیا وہ کہا تھا نا اس سے دور رہنا پھر بھی میری بات کا اثر نہیں ہوا کیا باتیں کر رہا تھا تم سے بولو ۔۔۔۔۔۔۔ اس کی سانسوں کی تپش ساوی کے چہرے پہ پڑ رہی تھی اور اسے لگ رہا تھا اس کا چہرہ جھلس جائے گا۔۔ وہ ممم نے نن نہیں کی کوئی بات ۔۔۔ووہ خخ خود آئے تھ تھے کہہ ررہے تھے کک کہ میں اُنہیں بھائی کک کیوں کہتی ہوں آپ کک کو کیوں نن نہیں کک کہتی۔۔۔۔۔۔وہ اٹک اٹک کر بولتی اسے بتانے کی کوشش کرنے لگی اُس نے اس کے ہاتھ پکڑ کر دیوار پر ٹکا دئیے۔۔۔۔ وہ اس کی بات سن کے مسکرا دیا ۔۔ تو کیا بتایا تم نے کیوں نہیں کہتی تم مجھے بھائی؟؟؟ مم میں وہ وہ ۔۔۔۔۔ وہ اس کے سوال پہ سٹپٹا سی گئ اب وہ کیا بتاتی کہ وہ اس سے محبت کرتہ ہے اس لیے نہیں کہتی بھائی۔۔۔۔ شرم سے اس کا چہرہ لال ہو گیا ہاں تم کیا ؟؟؟؟ وہ پھر سے سوالیہ ہوا آپ آپ میرے بڈی ہیں ناں ااس لل لیے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہکلا کر کر بولی صرف بڈی؟؟؟ وہ معنی خیز لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔۔ ججج جی جی ۔۔۔۔۔۔ اس سے بولنا مشکل ہو گیا۔۔۔ اور وہ اس کے ہلتے لبوں کو دیکھنے لگا پانی سے بھیگا چہرہ گھبراہٹ سے جھکی آنکھیں اور جھکتی لرزتی پلکیں وہ پہلی دفعہ اسے اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا اور دل میں بسس ایک ہی خواہش مچل رہی تھی کہ اس پر صرف اُس کا حق ہو اسے کوئی اور نہ دیکھے اسے چھپا کے اپنے دل میں رکھ لے۔۔۔ وہ بے اختیار ہی جُھکا اور اس کی پیشانی پہ عقیدت سے بھرپور بوسہ دے گیا کہ وہ جو کُچھ اور بولنے کی کوشش کر رہی تھی ایک دم ساکت سی رہ گئی عزت احترام مان اور پھر محبت ایک دم ہی بہت سے احساسات محسوس ہوئے تھے اسے درید کے انداز میں ۔۔۔۔۔ کہاں پہلے اس کی پکڑ میں اتنی شدت تھی اور اب اتنی ہی نرمی آگئی تھی یہ پل بھر میں کیا ہوا تھا وہ سمجھ ہی نہ سکی۔۔۔۔ ایک بات یاد رکھنا تم صرف میری ہو درید کی۔۔۔۔۔ اگر کسی اور کے بارے میں سوچا نہ تو پہلے تمہاری جان لوں گا پھر اپنی تمہارے دل میں دماغ میں سوچوں میں جزبات میں صرف درید ہونا چاہیئے اور کوئی نہیں ۔۔۔۔۔ کہو ساوی صرف درید کی ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ اس کے کان میں سرگوشی کرتا بول رہا تھا یہ کیا تھا ؟؟ دونوں طرف سے اظہار نہیں ہوا تھا مگر دل ایک ہی لے میں دھڑک رہے تھے درید کی محبت بھی دھونس بھری تھی محبت کا اظہار کرنے کی بجائے ملکیت جتا رہا تھا اور اس سے تصدیق بھی چاہ رہا تھا۔۔۔۔۔ کہو کہ اساورہ صرف درید احمد کی ہے ۔۔۔۔۔جب وہ کافی دیر کُچھ نہ بولی تو وہ پھر اس کان میں غرایا ۔ اساورہ صرف درید احمد کی ہے ۔۔۔۔۔۔ اس کے لب ہلے اور سرگوشی کی صورت یہ الفاظ درید کے کانوں میں اتر گئے ۔۔۔
اور درید کو لگا اب چاہے کوئی کُچھ بھی کر لے ساوی صرف درید کی رہے گی ۔۔۔۔۔ اپنا خیال رکھنا اور مکرنا مت تم نے خود کہا ہے کہ تم صرف میری ہو ۔۔۔۔ کیا شاہانہ انداز تھا خود ہی کہلوا کر خود ہی کہہ رہا تھا کہ تم نے کہا ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ اس کے ہاتھ چھوڑ کر پیچھے ہوا اور ایکدم ہی جھک کر لبوں سے اس کے کندھے کو چھو لیا ۔۔۔۔ کہ وہ شرم سے آنکھیں میچ گئی ۔۔۔۔۔ وہ کافی دیر اسی طرح کھڑی رہی جب اسے لگا کہ کمرے میں کوئی نہیں ہے تو دھیرے سے آنکھیں کھولیں کمرے میں کسی کو نا پا کر وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی بیڈ تک آئی اور اپنے دل پہ ہاتھ رکھا جس کی دھڑکن معمول سے تیز تھی۔۔۔۔ وہ ابھی ہوئے سارے واقعے کو سوچتے شرما گئی اور منہ ہاتھوں میں چھپا لیا مطلب درید بھی اسے چاہتا تھا وہ اکیلی اس راہ کی مسافر نہیں تھی اس کا حق جتاتا انداز اس اسے اچھا لگا تھا ۔۔۔۔ یہ احساس ہی بہت خوش گوار تھا کہ اس کی محبت یکطرفہ نہیں تھی کُچھ دیر پہلے جو وہ اشعر کی باتوں کو لے کے پریشان تھی اب بلکل بھول چکی تھی۔۔۔۔۔ عانیہ اب تک نہیں آئی تھی اور وہ شکر کر رہی تھی کہ وہ نہیں آئی ۔۔۔۔۔ درید کے بارے میں سوچتے سوچتے اس کی کب آنکھ لگی اسے پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔۔


اُنہیں وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا تھا مگر ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا وہ ان کےبیڈ پاس ہی رکھی چئیر پہ بیٹھا تھا جبکہ بوا صوفے پہ بیٹھی ہوئیں تھیں۔۔۔ وہ یک ٹک ان کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا جو پہلے سے زیادہ کمزور لگ رہا تھا آنکھوں کے نیچے حلقے واضح تھے ہاتھوں کی ہڈیاں اُبھر آئیں تھیں انہیں دیکھ کے ایک دفعی پھر احساس ندامت نے سر اُٹھایا تھا مگر اس کی ندامت گُزرے وقت کو واپس نہیں لا سکتی تھی۔۔۔۔ انہیں اس حال میں پہنچانے کا ذمہ دار وہ خود کو سمجھتا تھا۔۔۔۔۔۔ اچانک ان کے ہاتھوں میں حرکت سی ہوئی اور انہوں نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں کھولنی شروع کر دیں ۔۔۔۔۔اس نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اس کی آنکھیں نم تھیں ۔۔۔۔ رو کیوں رہے ہو دیکھو بلکل ٹھیک ہوں میں ۔۔۔۔۔ ہوش میں آتے ہی ان کی نظر اس کی آنکھوں پہ اٹک گئی بہت ڈر گیا تھا میں اگر آپ کو بھی کُچھ ہو جاتا تو میں اکیلا رہ جاتا کیوں ستاتی ہیں مجھے کیوں پریشان کرتی ہیں ٹھیک ہو جائیں نہ پہلے کی طرح جیسے پہلے ہوتیں تھیں ہنستی بولتی ہوئی ایسے آپ بلکل اچھی نہیں لگ رہیں ۔۔۔۔۔ وہ روتے ہوئے بول رہا تھا ۔۔۔ میرے ہنسنے کی وجہ کو تو چھین چکے ہو مجھ سے اب کیسے ہنسوں مسکراوں میری ہنسی تو میری نور اپنے ساتھ لے گئی ۔۔۔ آپ آپ فکر مت کریں ممم میں بہت جلد ڈھونڈ لوں گا آپ کی نور کو آپ کو پتہ ہے آج میں نے اسے دیکھا یہاں ہوسپٹل میں وہ یہاں آئی تھی اور بلکل ٹھیک تھی وہ جہاں بھی ہے بلکل ٹھیک ہے بہت جلد آپ سے ملواوؑ گا اسے ۔۔۔۔۔۔ وہ انہیں بتاتا ہوا بولا ۔ تت تم سچ کہہ رہے ہو کک کب دیکھا اسے؟ تم نے اسے بتایا نہیں کہ میں یہاں ہوں ہسپتال میں اس کی جدائی نے مجھے جیتے جی مار دیا ہے تم اسے یہاں کیوں نہیں لائے تم اسے میرے بارے میں بتاتے وہ میری بیماری کا سنتے ہی دوڑی چلی آتی ساری ناراضگی ختم کر دیتی۔۔۔۔۔۔ وہ بے تابی سے بولیں ۔۔۔۔ میں اس کے پاس پہنچتا اس سے پہلے ہی وہ چلی گئی مگر آپ فکر مت کریں آج وہ نظر آگئی ہے نا تو اس میں بھی خدا کی حکمت ہے اب تو خدا بھی میری مدد کر رہا ہے اب تو وہ جلدی ہمارے ساتھ ہو گی ۔۔۔۔۔ وہ انہیں تسلی دیتا ہوا بولا وہ مجھے معاف تو کر دے گی نا مجھے سے اور اس کی ناراضگی برداشت نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ وہ رونے لگیں تھیں وہ آپ سے ناراض رہ ہی نہیں سکتی دیکھنا آپ کو دیکھتے ہی گلے لگ جائے گی آپ کے ۔۔۔۔ وہ آپ کو تو معاف کر دے گی پتہ نہیں مجھے معاف کرے گی بھی یا نہیں ۔۔۔۔ وہ انہیں سمبھالتا آخری بات دل میں بولا ۔۔۔۔۔ اب بلکل نہیں روئیں ورنہ آپ کی طبیعت اور خراب ہو جائے گی چلیں آپ ریسٹ کریں اب۔۔۔۔۔وہ ان پہ چادر ٹھیک کرتا ہوا بولا اور بوا کے لیے کھانا لینے چلا گیا جنہوں نےپریشانی میں صبح سے کُچھ نہیں کھایاتھا ۔۔۔۔۔

   0
0 Comments